Click Here

Monday, September 30, 2013

تم میرا نام کیوں نہیں لیتی ۔


شرم، دہشت، جھجک، پریشانی،
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی،

آپ، وہ، جی، مگر، یہ سب کیا ہے،
تم میرا نام کیوں نہیں لیتی ۔

جون ايليا

اپنے لاہور کے نام !

! اپنے لاہور کے نام 
اے ساکنانِ خطہء لاہور! دیکھنا
لایا ہوں اس خرابے میں سے لعلِ معدنی
ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی ---
ناصر کاظمی

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ


بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

مجرم ہوں اور خرابہء جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے_

عرفان صدیقی

علامہ اقبال

یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی !
یا بندہ خدابن یا بندہ زمانہ

غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

رازِ حرم سے شاید اقبال با خبر ہے
ہیں اس کی گفتگو میں اندازِ مجرمانہ

ـ ـ ـ علامہ اقبال ـ ـ ـ

Friday, September 20, 2013

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے



وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

جون ایلیا

یہ بام و در بھی مرے ساتھ خواب دیکھیں گے



یہ بام و در بھی مرے ساتھ خواب دیکھیں گے
تمام رات مرا اضطراب دیکھیں گے

جہانِ حرف و معانی میں جس نے اُلجھایا
ہم اُس کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھیں گے

وہ میرے شہر میں آئے گا اور ملے کا نہیں!
وہ کر سکے گا بھلا اجتناب! دیکھیں گے!

تمام عمر دعا کے لئے اُٹھائے ہاتھ
ہیں خوش گمان، خوشی سے عذاب دیکھیں گے

ملیں گے اُس سے کہیں دوسرے کنارے پر
سراب پار کریں گے، سراب دیکھیں گے

وہ مرحلہ بھی سرِ راہِ عشق آئے گا
سوال کرنے سے پہلے جواب دیکھیں گے

چھڑا کے ہاتھ کسی روز اپنی وحشت سے
فصیلِ شہرِ تمنا کا باب دیکھیں گے

سحر کے بعد شمارِ نجومِ شب ہو گا
سفر کے بعد سفر کا حساب دیکھیں گے

عنبرین صلاح الدین

یہی منظر تھے انجانے سے، پہلے



یہی منظر تھے انجانے سے، پہلے
تمھارے شہر میں آنے سے پہلے

زمیں کی دھڑکنیں پہچان لینا
کوئی دیوار بنوانے سے پہلے

پلٹ کر کیوں مجھے سب دیکھتے ہیں
تمھارا ذکر فرمانے سے پہلے

نجانے کتنی آنکھیں منتظر تھیں
ستارے بام پر آنے سے پہلے

دریچے بند ہوجاتے ہیں کتنے
یہاں منظر بدل جانے سے پہلے

عنبرین صلاح الدین


کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں

کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں

غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں

چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں

نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں

مجھے یہ وہم لاحق تھا، درودالان ہیں میرے

مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں

تمہاری گفتگو سنتی رہے دنیا، پہ دم بھر میں

ہماری خوشکلامی بھی بنی اِک داستاں جاناں

مری دہلیز پر صدیوں سے ہے پہرا عزابوں کا

مجھے اِذنِ سفر کب ہے جو کھولوں بادباں جاناں

عجب بے چارگی ہے، ہر طرف ہیں خوف کے پہرے

جہانِ ہست کی وحشت میں ہوں بے سائباں جاناں

قفس کے اُس طرف پہنچے کبھی میری کہانی بھی

اُفق کے پار بھی جائے کبھی میری فغاں جاناں

کبھی مجھ کو پکارو تو مرے اپنے حوالے سے

تمہارے ہاتھ پہ رکھ دوں زمین و آسماں جاناں

عنبرین صلاح الدین


مرے گھر سے تمہارے آستاں تک

مرے گھر سے تمہارے آستاں تک
گماں کے رنگ ہیں حدِّ گماں تک

کئی موسم ہیں پھیلے درمیاں میں
بہاروں سے تری، میری خزاں تک

ابھی سے رات کیوں ڈھلنے لگی ہے
ابھی آئی نہیں باتیں زباں تک

مرے رہبر کا رستہ کھو گیا ہے
کوئی لے آئے اُس کو کارواں تک

پہنچ جائیں گے اِک دن رفتہ رفتہ
تمہارے تِیر بھی میری کماں تک

کئی صدیوں میں سمٹی ہے مسافت
مسافر ہیں، چلیں آخر کہاں تک

سمجھ آئی نہیں اپنی ہمیں بھی
بنا ڈالی کسی نے داستاں تک

عنبرین صلاح الدین

میرے خوابوں کی مرے شہر نے قیمت دیکھی

خار و خس کی مہ و انجم سے یوں نسبت دیکھی

میرے خوابوں کی مرے شہر نے قیمت دیکھی

کب مرا راستہ ایسا تھا کہ تجھ تک پہنچے

میں نے خود چشمِ تخیل سے رعایت دیکھی

میں نے لفظوں کو سمیٹا تو فسانے پھیلے

خواب بکھرے تو مری آنکھ نے شہرت دیکھی

وقت کی آندھیاں کس سمت اڑا لے آئیں

اس نے دیکھا تھا مجھے، میں نے قیامت دیکھی

گونج رہتی ہے دروبام میں تنہائی کی

کب ترے بعد کسی جشن کی فرصت دیکھی

اس کے لفظوں کے مقابل مَیں بھلا کیا کہتی

میں نے حیران ہی رہنے میں سہولت دیکھی

چھو کے آئی ترا پیکر جو نکھرتی ہوئی دھوپ

کیا سے کیا میں نے دروبام کی رنگت دیکھی

عنبرین صلاح الدین

Wednesday, September 18, 2013

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائيدار میں

بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں

کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں

عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

بہادر شاہ ظفر

Monday, September 2, 2013

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا مرا چہرہ ہے سمندر تیری آنکھیں

پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں

خالی جو ہوئی شامِ غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہی گوہر تیری آنکھیں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

ابھی وقت ھے ابھی سانس ھے.ابھی لوٹ آ میرے گمشدہ

ابھی وقت ھے ابھی سانس ھے.ابھی لوٹ آ میرے گمشدہ
مجھے ناز ھے بڑے ضبط کا،مجھے خون رلا میرے گمشدہ

یہ نہیں کہ تیرے فرا ق میں،میں اجڑ گی یا بکھر گی
ھاں محبتوں پہ جو مان تھا ،وہ نہیں رھا میرے گمشدہ

مجھے علم ھے کہ تو چاند ھے کسی اور کا،مگر ایک پل
میرے آسمان حیات پہ ذرا جگمگا میرے گمشدہ

تیرے التفات کی بارشیں جو میری نہیں تو بتا مجھے
تیرے دشت چاہ میں کس لیۓ میرا دل جلا میرے گمشدہ

گھنے جنگلوں میں گھری ہوں میں،بڑا گھپ اندھیرا ھے چار سو
کوئ اک چراغ تو جل اٹھے،ذرا مسکرا میرے گمشدہ

ابھی وقت ھے ابھی سانس ھے.ابھی لوٹ آ میرے گمشدہ
مجھے ناز ھے بڑے ضبط کا،مجھے خون رلا میرے گمشدہ

بارہواں کھلا ڑی

بارہواں کھلا ڑی

خو شگوارموسم میں

ان گنت تماشائی

اپنی اپنی ٹیموں کو

داد دینے آتے ہیں

اپنے اپنے پیاروں کا

حو صلہ بڑ ھا تے ہیں

میں الگ تھلگ سب سے

با رہویں کھلا ڑی کو

ہوٹ کر تا رہتا ہوں

بارہواں کھلاڑی بھی

کیا عجب کھلا ڑی ہے

کھیل ہو تا رہتا ہے

شور مچتا رہتا ہے

داد پڑ تی رہتی ہے

اور وہ الگ سب سے

انتظار کرتاہے

ایک ایسی ساعت کا

ایک ایسے لمحے کا

جس میں سانحہ ہوجائے

پھر وہ کھیلنے نکلے

تالیوں کے جھر مٹ میں

ایک جملہ خوش کن

ایک نعرہ تحسین

اس کے نام پر ہوجائے

سب کھلا ڑیوں کے ساتھ

وہ بھی معتبر ہوجائے

پر یہ کم ہی ہوتاہے

پھر بھی لوگ کہتے ہیں

کھیل سے کھلاڑی کا

عمر بھر کا رشتہ ہے

عمر بھر کایہ رشتہ

چھو ٹ بھی تو سکتا ہے

آخری وسل کے ساتھ

ڈوب جانے والا دل

ٹو ٹ بھی توسکتاہے


افتخار عارف

میں تیری سنگت میں بھی تنہا تھی

میں تیری سنگت میں بھی تنہا تھی
میں تیرے ہجر میں بھی اب اکیلی ہوں
بھلے بے مائیگی آزار کی صورت
مری آنکھوں سے رستی رہتی ہے
لیکن تجھے اب چاہنے والا
وہ دل ہی نہ رہا
ورنہ تو سانسوں کے سبھی سُر
آج بھی شاید
تجھے ہم سونپ دیتے
گو کہ حدِ آسماں، حدِ نظر
اب صرف تنہائی ہی ساتھی ہے
مگر دریا میں لہریں اُلٹی کب چلتی ہیں؟
رستے لوٹ کر واپس ہی کب آتے ہیں؟
اب میں خود کی خواہش میں ہی رہنا چاہتی ہوں
زندگی کو خود ہی جینا چاہتی ہوں _