Click Here

Tuesday, September 15, 2015

Karti Hai Intezar Mere Gaon Ki Mitti


Karti Hai Intezar Mere Gaon Ki Mitti
Rehti Hai Barqaraar Mere Gaon Ki Mitti

Wo Neem Ki Khushboo Wo Dhoop Wo Hawa
Deti Hai Aitbaar Mere Gaon Ki Mitti

Ghar K Darakht Saya-e-Aanchal K Razamand
Mujh Pe Hai Jaan Nisaar Mere Gaon Ki Mitti

Barish K Wo Talaab Aur Kaghaz Ki Kashtiyan
Ab Tak Hai Imandaar Mere Gaon Ki Mitti

Chokhat Pe Rakh K Pair Jise Roondh Main Aya
Aye Shams Wo Hai Pyar Mere Gaon Ki Mitti...

Mohabbat Tab Se Karta Hun . Ghazal Poetry


Tumhe Dekha Hai Jis Din Se
Mohabbat Tab Se Karta Hun

Mere Khawabon Ki Tehreerein
Mehaz Teri Hi Tasveerein

Nazar Ye Aashna Bhi Hai
Tumhe Shayad Pata Bhi Hai

Tumhe Socha Hai Jis Din Se
Adawat Tab Se Karta Hun
Mohabbat Tab Se Karta Hun

Meri Khamosh Dharkan Ki
Sada Bas Tum Hi Ho Jana

Main Jis Ko Apna Kehta Hun
Dua Wo Tum Hi Ho Jana

Nazar Me Jab Se Ayi Ho
Main Chahat Tab Se Karta Hun
Mohabbat Tab Se Karta Hun

Kabhi Samjho Isharon Ko
Tumhe Pane Ki Hasrat Hai

Bata Do Aye Meri Jana
Kya Tum Ko Bhi Mohabbat Hai

Hua Hun Jab Se Dewaana
Wafaawat Tab Se Karta Hun
Mohabbat Tab Se Karta Hun

Tumhe Dekha Hai Jis Din Se
Mohabbat Tab Se Karta Hun...

Wednesday, September 9, 2015

غزل سن کر پریشان ہو گئے کیا

غزل سن کر پریشان ہو گئے کیا
کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا
یا بیگانہ روی پہلے نہیں تھی
کہو تم بھی کسی کے ہو گئے کیا
ابھی کچھ دیر پہلے تک یہیں تھے
زمانہ ہو گیا تم کو گئے کیا
کسی تازہ رفاقت کی للک ہے
پرانے زخم اچھے ہو گئے کیا
پلٹ کر چارا گر کون آ گئے ہیں
شب فرقت کے مرے سو گئے کیا
فراز اتنا نا اترا حوصلے پر
اسے بھولے زمانے ہو گئے کیا

محبت ہے ۔

محبت ہے

تم سے کتنی محبت ہے یہ میں بتا نہیں سکتی
اپنی زندگی میں تمھاری اہمیت جتا نہیں سکتی

میری زندگی کا ہر لمحہ تمہی سے شروع ہوتا ہے
تم سے دور رہ کے ایک پل بھی اکیلے بتا نہیں سکتی

ممکن ہے میں خود کو بھول جاؤں
پر تجھے بھولنے کی خطا میں کر نہیں سکتی

تم میرے دل میں ہی نہیں میرے روم روم میں بسے ہو
تم سے بچھڑ کے میں یہ زندگی جی نہیں سکتی

یقین نہیں ہوتا کے تم چاہتے نہیں ہمیں
اپنے درد کو اپنی زبان سے بیان کر نہیں سکتی

آج وعدہ ہے میرے دل سے او میرے صنم
تمھارے سوا میں کسی اور کو چاہ نہیں سکتی

شرط

یہ تم جانتی ہو میں ضدی بہت ہوں
انا بھی ہے مجھ میں
میں سنتا ہوں دل کی (فقط اپنے دل کی)
کسی کی کوئی بات سنتا نہیں ہوں
مگر اپنی دھن میں صبح و شام رہنا
کوئی درد اپنا کسی سے نہ کہنا
یہ عادت ہے میری
میں عادت بھی کوئی بدلتا نہیں ہوں
یہ تم جانتی ہو
مگر یہ بھی سچ ہے
میں ضد چھوڑ دوں گا
انا کی یہ دیوار بھی توڑ دوں گا
بدل لوں گا ہر ایک عادت بھی اپنی
"اگر تم کہو گی"

Thursday, September 3, 2015

تعصب ۔ سر سیّد احمد خان

السلامُ علیکم دوستو ؛ 
آج میں نے تعصب کے بارے جناب سر سیّد احمد خان صاحب کا ایک مضمون پڑھا ۔ پڑھ کر سوچا کہ کیوں نا آپ کے ساتھ شئیر کروں ۔

انسان کی بدترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بدترین خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائلِ انسان سے ہے اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا کیونکہ اس کے مخالفوں کو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور دیدہ و دانستہ برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔
مذہبی تعصبات کی نسبت بھی ہم کچھ تھوڑا سا بیان کریں گے مگر اول امورِ تمدن و معاشرت میں جو نقصان تعصب سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔
انسان قواعدِ قدرت کے مطابق مدنی الطبع پیدا ہوا ہے۔ وہ تنہا اپنی حوائجِ ضروری کو مہیا نہیں کر سکتا۔ اس کو ہمیشہ مددگاروں اور معاونوں کی، جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں، ضرورت ہوتی ہے مگر متعصب بسبب اپنے تعصب کے تمام لوگوں سے منحرف اور بیزار رہتا ہے اور کسی کی دوستی اور محبت کی طرف بجز ان چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں مائل نہیں ہوتا۔
عقل اور قواعدِ قدرت کا مقتضیٰ یہ معلوم ہوتا ہے کہ امورِ متعلقِ تمدن و معاشرت میں جو باتیں زیادہ آرام اور زیادہ لیاقت اور زیادہ عزت کی ہیں ان کو انسان اختیار کرے مگر متعصب اُن سب نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ ہنر اور فن اور علم ایسی عمدہ چیزیں ہیں کہ ان میں ہر ایک چیز کو نہایت اعلیٰ درجے تک حاصل کرنا چاہیے مگر متعصب اپنی بدخصلت سے ہر ایک ہنر اور فن اور علم کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے سے محروم رہتا ہے۔
وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے جو نئی تحقیقات سے اور نئے علوم و فنون سے حاصل ہوتی ہیں محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے۔ اس کی عقل اور اس کے دماغ کی قوت محض بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوتی ہے اس کے سوا کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ بالطبع آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔
بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں، کیا اخلاق میں اور کیا علم و ہنر میں اور کیا فضل و دانش میں اور کیا تہذیب و شائستگی میں اور کیا جاہ و حشمت اور مال و دولت میں، اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجہ مذلت اور خواری کو پہنچ گئی ہیں۔ اور بہت سی قومیں ہیں جنہوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتیں اخذ کیں اور ادنیٰ درجے سے ترقی کر کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ گئیں۔ مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بدگمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں قسم کی بھلائیوں کے حاصل کرنے سے اور دنیا میں اپنے تئیں ایک معزز قوم دکھانے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے عملی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بدخصلت سے نکلیں اور علم و فضل اور ہنر و کمال کے اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں۔ ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ بڑی ہے کہ بعض دفعہ ایک غلط نمائی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذہب میں بڑا متعصب ہو، تمام شخصوں کو جو اس مذہب کے نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے، اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے بڑا پختہ اور پکا اپنے مذہب میں سمجھتے ہیں مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے جس نے حقیقت میں مسلمانوں کو برباد کر دیا ہے۔ ہمارا مذہب اور مذہبی علوم دنیا اور دنیاوی علوم بالکل علیحدہ چیزیں ہیں، پس بڑی نادانی ہے جو دنیاوی علوم و فنون کے سیکھنے میں کسی قسم کے تعصبِ مذہبی کو کام میں لاویں۔
اگر یہ خیال ہو کہ دنیاوی علوم کو سیکھنے سے ہمارے عقائدِ مذہبی میں سستی آتی ہے کیونکہ مذہبی مسائل اُن دنیاوی علوم کے پڑھنے سے مشتبہ یا غلط معلوم ہوتے ہیں تو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اپنے ایسے روشن اور مستحکم سچے مذہب کو ایسا کمزور اور ضعیف سمجھتے ہیں کہ دنیاوی علوم کی ترقی سے اس کی برہمی کا خیال کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب ہے کہ جس قدر دینی اور دنیوی علوم کی ترقی ہوتی جاوے گی اُسی قدر اس کی سچائی زیادہ تر ثابت ہو گی۔ اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ اپنے مذہب میں پختہ ہونا جدا بات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہلِ مذہب کے لیے ہو سکتی ہے اور تعصب، گو کہ وہ مذہب