تو میری جبیں پہ لکھا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
ابھی راسته بھی ہے دھول میں ابھی فائدہ بھی ہے بھول میں
ابھی مجھ کو تجھ سے گِلا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
میں جنم جنم سے ناراض ہوں میں جنم جنم سے اداس ہوں
میں کبھی بھی کھل کے ہنسا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
تو ہے خواب خواب پکارتا میری آنکھ میں نہیں اشک بھی
میں کے مدتوں سے جیا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
تجھے خوشبئوں کی ہے آرزو تجھے روشنی کی ہے جستجو
میں ہوا نہیں میں دیا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
تجھے آنسوں کا پتہ نہیں تجھے رتجگوں کا گمان نہیں
تجھے اس سے آگے پتہ نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
کہیں چھوٹ سکتا ہے درمیان نا زمین ملے گی نا آسمان
تجھے راستے کا پتہ نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
مجھے ڈھونڈتا ہی پھرے گا تو نا جئے گا روز مرے گا تو
میں کبھی بھی گھر پہ ملا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
کہو ! لوٹنا ہے کبھی یا میرے درد سن میرے مہربان
میرے پاس وقت ذرا نہیں میرے ہمسفر ابھی سوچ لے
No comments:
Post a Comment