Click Here

Tuesday, September 25, 2012

وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں


ہے منتخب یہ ازل سے رشتہ کہ یار مجھ میں ، میں یار میں ہوں
نہ اس نے سوچا نہ میں نے سمجھا کہ یار مجھ میں ، میں یار میں ہوں

ہوا ہے وہ امتزاج پیدا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں
ہے دونوں قالب میں روح تنہا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

تمام عالم کی جستجو ہے ہوۓ ہیں دو ایک جان کیسے
یونہی ہے حیران چشمِ بینا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

وہ مجھ میں کھویا میں اس میں کھویا جہان میں لا ولد ہیں گویا
کرشمہ الفت نے یہ دکھایا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

وہ میری پتلی میں ہے سراپا میں اس کی پتلی میں ہوں سراپا
خود اپنی آنکھوں میں آج دیکھا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

No comments:

Post a Comment