ہر نفس درد کے سانچے میں ڈھلا ہو جیسے
زیست نا کردی گناہوں کی سزا ہو جیسے
لے گئی یُوں مجھے خوابوں کے جزیروں کی طرف
نکہت گُل ترے آ نچل کی ہوا ہو جیسے
ظُلمت۔۔ شام الم مُجھ سے گریزاں ہے ابھی
اک ستارا مری پلکوں میں چھپا ہو جیسے
تیری زلفیں بھی پریشاں ہیں مرے دل کی طرح
تو بھی کچھ دیر مرے ساتھ رہا ہو جیسے
میں تیرے سائے سے بچ بچ کے چلا ہوں اکثر
میری منزل تیری منزل سے جُدا ہو جیسے
پھول مانگوں تو عطا کرتے ہیں زخموں کے کنول
اب یہی شیوہ ء ارباب وفا ہو جیسے
یُوں مری آنکھ سے اوجھل وہ رہا اکثر
اس کا پیکر مرے خوابوں میں ڈھلا ہو جیسے
چاندنی اپنے تقدس پہ ہے نازاں اتنی
مریم شب کی خطا پوش رد ا ہو جیسے
آج پھر اُن سے ملاقات ہوئی ہے محسن
آج پھر دل پہ کوئی زخم لگا ہو جیسے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment