دل میں رہنے کی جگہ دو تو مزہ آجائے
زلف زنجیر بنا دو تو مزہ آجائے
چشمِ حیراں کو تجلی کی ہے خواہش ہر پل
پھر سے اک طُور جلا دو تو مزہ آجائے
وصل کا خواب جو دیکھا تھا شبِ فرقت میں
اسکو تعبیر بنا دو تو مزہ آجائے
میرا ہمشکل ہے اک شخص سرِ آئینہ
تم اسے مجھ سے ملا دو تو مزہ آجائے
زندگی کی تو سبھی ہم کو دعا دیتے ہیں
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزہ آجائے
میں تو صحرا ہوں محبت کا مرے خشک ہیں لب
تم مری پیاس بجھا دو تو مزہ آجائے
دل کا ویرانہ ہے تاریک بہت، لیکن تم
آکے اک شمع جلا دو تو مزہ آجائے
روز پیتا ہوں سَبُو سے تو اسد، اِم شَب تم
اپنے ہونٹوں سے پلا دو تو مزہ آجائے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment