Click Here

Tuesday, January 8, 2013

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کارنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment