Click Here

Monday, January 7, 2013

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا

ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا

عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجۂِ وابستگی کو بھول گیا

سب سے پُرامن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا

خواب ہے خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہے رنگ اسی کو بھول گیا

بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا

اس نے گویا مجھ ہی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment