ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا
عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجۂِ وابستگی کو بھول گیا
سب سے پُرامن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا
خواب ہے خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہے رنگ اسی کو بھول گیا
بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا
اس نے گویا مجھ ہی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بھول گیا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment