حال خوش تذکرہ نگاروں کا
تھا تو اک شہر خاکساروں کا
پہلے رہتے تھے کوچہء دل میں
اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا
کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
بسترا اب کہاں ہے یاروں کا
چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر
کون پُرساں ہے یادگاروں کا
اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں
مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا
ان سے جو شہر میں ہیں بے دعوى
عیش مت پوچھ دعویداروں کا
کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو
نہ پیادوں کا نہ سواروں کا
بات تشبیہہ کی نہ کیجو تُو
دہر ہے صرف استعاروں کا
میں تو خیر اپنی جان ہی سے گیا
کیا ہوا جانے جانثاروں کا
کچھ نہیں اب سوائے خاکستر
ایک جلسہ تھا شعلہ خواروں کا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment