وہ کہ خود اپنے تغافل سے بھی انجان رہے
ہم وفا کرتے رہے اور پشیمان رہے
زرد پتے کی طرح ترک_ تعلق نہ کریں
ہوں الگ ایسے کہ تجدید کا امکان رہے
نفرتیں، پیار، وفا، جزبہ ایثار و خلوص
دل وہ گھر جس میں ہمیشہ نئے مہمان رہے
اک نیا آدمی ڈھونڈا ہے خود اپنے اندر
یعنی اک عمر تک اس وصف سے انجان رہے
اس بلندی نے تو رشتہ بھی زمین سے توڑا
فاصلے کم ہوں تو اپنوں کی بھی پہچان رہے
ہم جو ڈوبے ہیں تو سورج کی طرح اے مہدی
تا کہ اک اور نئی صبح کا امکان رہے
No comments:
Post a Comment