بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو
لو ہاتھ جوڑے ، لو کان پکڑے ، اب اور کیسے منائیں تم کو
تمہارے آتے ہی اس نگر سے، ہمیں رقابت سی ہو گئی ہے
میں یہ شرارت بھی کیسے سہہ لوں کہ چھو رہی ہیں ہوائیں تم کو
تم آئینہ ہو اور سنگ باری یہاں کے لوگوں کا مشغلہ ہے
ہر ایک پتھر سے ڈھال بن کر،بھلا کہاں تک بچائیں تم کو
جو سچ کہیں تو ، تمھیں تو غصے نے اور دلکش بنا دیا ہے
ہمارے من کو تو سوجھتا ہے ، اب اورغصہ دلائیں تم کو
تو کیا تم اب تک ، ہماری نظروں کے سب تقاضوں سے بے خبر ہو؟
ہمیں محبت ہے تم سے پاگل، اب اور کیسے بتائیں تم کو
بتائیں تم کو بچھڑتے لمحے ، لبوں کی لغزش کا کیا سبب تھا؟
سنا تھا وقتِ قبولیت ہے ، سو دے رہے تھے دعائیں تم کو
No comments:
Post a Comment