وہ جو شہرِ دل تھا اجڑ گیا
وہ جو خواب تھا بکھر گیا
کبھی موسموں کی نظر لگی
کبھی وہموں نے ڈرا دیا
کبھی زندگی کی کتاب سے
ہمیں جس نے چاہا مٹا دیا
بس اسی لیے وہ جو جا رہا تھا دور تک
اُسے دیکھتے ہی رہے مگر، نہیں دی صدا
اسے روکتے بھی تو کس لیے؟
اسے روکتے بھی تو کس لیے؟
No comments:
Post a Comment