لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب
ذہن نے کھولی، رُکتے رُکتے، ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب
گُزری بات، صدی یا پل ہو، گُزری بات ہے نقش بر آب
یہ رُوداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
شہرِ تمنّا کے مرکز میں، لگا ہُوا ہے میلا سا
کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے، اک رنگیں گُلزار کھلا
وہ اک بالک، جس کو گھر سے ، اک درہم بھی نہیں ملا
میلے کی سج دھج میں کھو کر، باپ کی اُنگلی چھوڑ گیا
ہوش آیا تو، خُود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا
بھیڑ میں راہ ملی نہی گھر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
وہ بالک ہے آج بھی حیراں، میلا جیوں کا تُوں ہے لگا
حیراں ہے، بازار میں چُپ چُپ ،کیا کیا بِکتا ہے سودا
کہیں شرافت، کہیں نجات، کہیں مُحبّت، کہیں وفا
آل اولاد کہیں بِکتی ہے، کہیں بُزرگ، اور کہیں خُدا
ہم نے اس احمق کو آخر، اِسی تَذبذُب میں چھوڑا
اور نکالی، راہ مَفر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
رہ نوردِ شوق کو، راہ میں، کیسے کیسے یار مِلے
ابرِ بہاراں، عکسِ نگاراں، خالِ رُخِ دلدار مِلے
کچھ بلکل مٹّی کے مادُھو، کچھ خنجر کی دھار مِلے
کچھ منجدھار میں، کچھ ساحل پر، کچھ دریا کے پار مِلے
ہم سب سے ہر حال میں لیکن، یُونہی ہاتھ پسار مِلے
اُن کی ہر خُوبی پہ نظر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
ساری ہے بے ربط کہانی، دُھندلے دُھندلے ہیں اوراق
کہاں ہیں وہ سب، جن سے جب تھی، پل بھر کی دُوری بھی شاق
کہیں کوئ ناسُو ر نہیں، گو حائل ہے، برسوں کا فراق
کِرم فراموشی نے دیکھو، چاٹ لۓ کتنے میثاق
وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں، چلو ہُوا قِصّہ بے باق
کُھلی، تو آخر بات اثر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
خوار ہُوۓ دمڑی کے پیچھے، اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اُٹّھے، جیسے چھُوا، تو کر دے کا کنگال
سیانے بن کر بات بِگاڑی، ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھانا دشتِ محبّت کتنا، آبلہ پا، مجنوں کی مثال
کبھی سکندر، کبھی قلندر، کبھی بگُولا، کبھی خیال
سوانگ رچاۓ، اور گُزر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
زیست، خُدا جانے ہے کیا شے، بُھوک، تجسّس، اشک، فرار
پھوُل سے بچّے، زُہرہ جبینیں، مرد، مجسّم باغ و بہار
مُرجھا جاتے ہیں کیوں اکثر، کون ہے وہ جس نے بیمار
:کیا ہے رُوحِ ارض کو آخر، اور یہ زہریلے افکار
کس مٹّی سے اُگتے ہیں سب، جینا کیوں ہے اک بیگار
ان باتوں سے قطع نظر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
دُور کہیں وہ کوئل کُوکی، رات کے سنّاٹے میں، دُور
کچّی زمیں پر بِکھرا ہوگا، مہکا مہکا آم کا بُور
بارِ مُشقّت کم کرنے کو، کھلیانوں میں کام سے چُور
کم سِن لڑکے گاتے ہوں گے، لو دیکھو وہ صبح کا نُور
چاہِ شب سے پھُوٹ کے نکلا، میں مغموم، کبھی مسُرور
سوچ رہا ہوں، اِدھر اُدھر کی، اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں
ابن انشاء
No comments:
Post a Comment