تھوڑی کڑوی ضرور ہے بابا
اپنے غم کا مگر مداوا ہے
ذائقہ کا قصور ہے بابا
تلخ و شیریں میں فاصلہ کیا ہے
رنگ و روغن کو سال و سن کو نہ دیکھ
پیڑ گننا کہ آم کھانا ہے
عمر گزری ہے خانقاہوں میں
ایک شب یاں گزار جانا ہے
حسن مختوم خوب تھا بابا
کاش حصے میں آپ کے آسکتا
عشق معصوم کیا کہا بابا
کاش میں یہ فریب کھاسکتا
حسن کا مل عیار عشق نفیس
سب مراحل سے گزر چکا ہوں میں
دل خریدا تھا کبھی ان کا
اب فقط اتنا جانتا ہوں میں
ایک رنگین خواب تھے بابا
موجہ ہائے سراب تھے بابا
ورنہ سرحد پہ تشنہ کامی کی
مئے رنگیں ہے سادہ پانی ہے
شرط حسن و وفا اضافی ہے
قید تسکین نفس کافی ہے
ابن انشاء
No comments:
Post a Comment