Click Here

Friday, August 17, 2012

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ












میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی 
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی 
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ 
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ 
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ 
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں 
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں 
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد 
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد 
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم 
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم 
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں 
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں 
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار 
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار 
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار 
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار 
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں 
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں 
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ


میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا










میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا 
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا 
وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک 
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک 
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز 
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک 
وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے 
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک 
کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی! 
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا 
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا 
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا 
میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی 
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی 
وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال 
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال 
آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام 
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام


اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے















اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے

واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی

روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو

وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف

قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے


تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی















تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی 
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی 

تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی 
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
 
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب 
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
 
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو 
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
 
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے 
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
 
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا 
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
 
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا 
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
 
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا 
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
 
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر 
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا



















ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا 
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا 
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ 
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا 
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا 
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا 
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا 
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا 
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی 
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا 
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں 
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے












تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

کس قدر آگ برستی ہے یہاں



کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں

صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا




سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟

زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟

چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

صیّاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا












بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا

اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل













پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل

لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل

دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ

جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل

کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن

گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل

میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے

چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل

مریمِ شعر پہ ہیں اہلِ ہوَس کی نظریں

فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل

تو نے خط میں مجھے "سرکارِ غزل" لکھا ہے

تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل

گھر کے بھیدی نے تو ڈھائی ہے قیامت شبنم

کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے



خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا












محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی 
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا 

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ 
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا 

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی 
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا 

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی 
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا 

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر 
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا 





بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
















بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے 
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں 
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا 
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے 
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں 
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی 
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے 

رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے















رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں 
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے 

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے 
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں 
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن 
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں 
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے 
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں













گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں

مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں

حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں

ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں

میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں

رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں

 چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیم
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی











وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی

ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی

روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی

تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت!
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی!

قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو!
کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی

دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی

آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن
آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد



دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثہ ء عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد 



ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا


ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئ بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا















تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے 
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت 
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو















ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو 
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو 

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے 
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو 

شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو 

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا 
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو 

دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی 
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو 

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل 
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو 

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے















ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغ  جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

سب مایا ہے












سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو 
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے
سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے

کب سماں تھا بہار سے پہلے



کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے


یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے















یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئینگی ٹوٹ ٹوٹکر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں‌کیا داغ روزہ دار 
اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے 

آپ کا اعتبار کون کرے











آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد 
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

غیر نے تم سے بیوفائی کی
یہ چلن اختیار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے 

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے











وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے 

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق














قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق 
سچ تو يہ ہے بری بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دينا 
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئی پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا 
تلخ کامی پہ با مزا ہے عشق

ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق

ديکھ حالت مری کہيں کافر 
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق

ديکھیے کس جگہ ڈبو دے گا
ميری کشتی کا نا خدا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق

قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہی کيا وبا ہے عشق

مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو













مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو

کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا ضرور ہے
بِن میرے شائد آپ کی پہچان بھی نہ ہو

آشفتہ سر جو لوگ ہیں مشکل پسند ہیں
مشکل نہ ہو جو کام تو آسان بھی نہ ہو

محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا
لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو

خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی
یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو

رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم
اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو

شاعر سعد اللہ شاہ














سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا
جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا

میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں
پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا

میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں
کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا

سمندروں کا سفر بھی تو دشت ایسا تھا
جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا

وہ پوچھتا تھا کہ آخر ہمارا رشتہ کیا
سوال اس کا مرے واسطے جواب ہوا

ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں
وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا

نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا
یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا