Click Here

Friday, August 17, 2012

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے















اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے

واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی

روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو

وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف

قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے


No comments:

Post a Comment