زندگی کا زندگی سے فاصلہ رہ جائے گا
صورتیں کھو جائیں گی بس آئینہ رہ جائے گا
تم چلے بھی جاؤ گے لیکن تمہاری یاد کا
دور تک پھیلا ہوا اک سلسلہ رہ جائے گا
قہقہوں کی مشعلیں اور رات کا پچھلا پہر
واقعے کے بعد بھی اک واقعہ رہ جائے گا
لاتعلق ہو گئے جب اس سے اس کے مہرباں
وہ ہماری بات کو پھر سوچتا رہ جائے گا
اوڑھ کر حیرانیوں کی چادریں سو جائیں گے
قافلے تھک جائیں گے اور راستہ رہ جائے گا
خواب بن جائے گی اک دن حُسن کی ہمسائیگی
بر سرِ دیوار بس اک واہمہ رہ جائے گا
No comments:
Post a Comment