روشنی کے باب بنتے جائیں گے
زخم جب مہتاب بنتے جائیں گے
چشمِ نم میں ڈوبنا چاہیں اگر
سینکڑوں گرداب بنتے جائیں گے
عشق جن کی زندگی میں ڈھل گیا
لوگ وہ نایاب بنتے جائیں گے
دوست بن کر جو ملیں گے راہ میں
درد کے اسباب بنتے جائیںگے
ہار بانہوں کا گلے میں ڈال کر
ہم تری محراب بنتے جائیں گے
تابِ نظارہ جو پیدا ہوگئی
اور بھی بیتاب بنتے جائیں گے
تیرے عکس ِناز سے اے دلربا
آئینے پر آب بنتے جائیں گے
جس قدر ہوں گی جہاں میں نفرتیں
خون کے سیلاب بنتے جائیں گے
اشک ان کی یاد میں لکھیں گے جو
عشق کے آداب بنتے جائیں گے
No comments:
Post a Comment