ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ۔ اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ ۔ اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بےتاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آجاو! جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم
شاعر شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment