Click Here

Tuesday, August 14, 2012

دوستو فرصت دلداری دنیا بھی کہاں



اپنے شعروں کے تو ممدوح تھے موزوں بدناں
یوں ملا اس کا صلہ، شان ویا کے شایاں
عشق مہجو رو تپاں، وصل نصیب دگراں
ہاں ہمیں دعویٰ زباں کا ہے، مگر اس عنواں
اپنی دلی یہ جہاں، اپنی محبت ہے زباں
تم سے پہلے ہی میاں، عشق کے قدموں کے نقوش
ماہ و مریخ کے ہاں، زہر سے کاہکشاں
تم سے کس مصر کے بازار میں کیا مول لیا؟
یوسف دل ہے یہاں سینۂ انشا میں نہاں
آج ہم منزل مقصود سے مایوس ہوئے
ہر طرف راہبراں، راہبراں، راہبراں
وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے
کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں

(شیر محمد خان (ابن انشا 

No comments:

Post a Comment