جان تیری، جہان تیرا ہے
دل کہاں ہے ،مکان تیرا ہے
فصل سود و زیاں کی میری ہے
فصلِ غم کا لگان تیرا ہے
کوئی بھی آسرا نہیں دیتا
کیا زمیں، آسمان تیرا ہے
تھے جو مشکل سوال، سب میرے
پیش اب امتحان تیرا ہے
ہم غریبوں کے آستانے کے
سامنے، آستان تیرا ہے
گھر ہو، مے خانہ ہو کہ محفل ہو
ہر جگہ ہم کو دھیان تیرا ہے
توڑ دی ہیں قیودِ جسم و جاں
دل کو پھر بھی گمان تیرا ہے
مے کدے کو بلال گھر ہی سمجھ
ایک یہ بھی مکان تیرا ہے
No comments:
Post a Comment