Click Here

Wednesday, January 9, 2013

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے

شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساگر سے کوئی چاند ابھارا جائے

راس آیا نہیں تسکین کا ساحل کوئی
پھر مجھے پیاس کے دریا میں اتارا جائے

مہربان تیری نظر، تیری ادائیں قاتل
تجھ کو کس نام سے اے دوست پکارا جائے

مجھ کو ڈر ہے تیرے وعدے پہ بھروسہ کر کے
مفت میں یہ دل ِخوش فہم نہ مارا جائے

جس کے دم سے تیرے دن رات درخشاں تھے قتیل
کیسے اب اس کے بنا وقت گزارا جائے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment