Click Here

Thursday, January 3, 2013

کیوں جل گیا نہ تابِ رخِ یار دیکھ کر

کیوں جل گیا نہ تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرربار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا! کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذتِ آزار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ، ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ غالبِ شوریدہ حال کا
یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

غالب

No comments:

Post a Comment