گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
لہو دینے لگی ہے چشم خوں بستہ سو اس بار
بھری آنکھوں میں خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
مبادا قصہ اہل جنوں ناگفتہ رہ جائے
نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
درختوں پہ ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
پھلوں کے بعد کیا ہوگا پتہ کرنا پڑے گا
گنوا بیٹھے ترے خاطر اپنے مہر ومہتاب
بتا اب اے زمانے اور کیا کرنا پڑے گا
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment