Click Here

Monday, January 7, 2013

تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟

تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟
کسی گلاب کو ٹہنی سے توڑ کر بھی نہیں
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟
سُبک کلائی میں گجرے کبھی پہنتے ہوئے
گلاب ہاتھوں پہ مہندی کبھی لگاتے ہوئے
سفید دودھیا آنچل کو زرد رنگتے ہوئے
گُلال ملتے ہوئے چوڑیاں پہنتے ہوئے
چمکتے ماتھے پہ بندیا کبھی سجاتے ہوئے
سنور کے دیر تک آئینے کو تکتے ہوئے
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟
کسی کبوترِ گرداں کو دیکھ کر بھی نہیں
کبھی دیا کسی درگاہ پر جلاتے ہوئے
کسی دکان پہ ساڑھی پسند کرتے ہوئے
لچکتی شاخ پہ پہلا گلاب لگتے ہوئے
کبھی یونہی کسی مخصوص دُھن کو سنتے ہوئے
کبھی کبھی یونہی کوئی کتاب پڑھتےہوئے
برستے ابر میں چھت پہ کبھی نہاتے ہوئے
کسی سہیلی سے ہنستے سمے لپٹتے ہوئے
کسی خیال میں بیٹھے سے اُٹھ کے چلتے ہوئے
کسی بھی رات کو اُٹھ کر یونہی ٹہلتے ہوئے
اکیلے دور تک خامشی میں چلتے ہوئے
خلا کی ذات کی بے آسرا بھٹکتے ہوئے
کسی پہاڑ پہ تنہا سنبھل کے چڑھتے ہوئے
اُترتے چاند کا موجوں میں عکس پڑتے ہوئے
کبھی لباس پہ خوشبو کوئی لگاتے ہوئے
فضا میں سوکھے پتّوں کا شور سنتے ہوئے
مٹے ہوئے سے درختوں پہ نام پڑھتے ہوئے
کسی بھی روز یونہی گھر کے کام کرتےہوئے
اذان ہوتے ہی آنچل سے سر کو ڈھکتے ہوئے
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟
کسی گلاب کو ٹہنی سے توڑ کر بھی نہیں
کسی کبوترِ گرداں کو دیکھ کر بھی نہیں
کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر بھی نہیں
تو کیا میں تمہیں کبھی یاد ہی نہیں آیا؟

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment