سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی ایک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے ...
احمد فراز
No comments:
Post a Comment