خار و خس کی مہ و انجم سے یوں نسبت دیکھی
میرے خوابوں کی مرے شہر نے قیمت دیکھی
کب مرا راستہ ایسا تھا کہ تجھ تک پہنچے
میں نے خود چشمِ تخیل سے رعایت دیکھی
میں نے لفظوں کو سمیٹا تو فسانے پھیلے
خواب بکھرے تو مری آنکھ نے شہرت دیکھی
وقت کی آندھیاں کس سمت اڑا لے آئیں
اس نے دیکھا تھا مجھے، میں نے قیامت دیکھی
گونج رہتی ہے دروبام میں تنہائی کی
کب ترے بعد کسی جشن کی فرصت دیکھی
اس کے لفظوں کے مقابل مَیں بھلا کیا کہتی
میں نے حیران ہی رہنے میں سہولت دیکھی
چھو کے آئی ترا پیکر جو نکھرتی ہوئی دھوپ
کیا سے کیا میں نے دروبام کی رنگت دیکھی
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment