مرے گھر سے تمہارے آستاں تک
گماں کے رنگ ہیں حدِّ گماں تک
کئی موسم ہیں پھیلے درمیاں میں
بہاروں سے تری، میری خزاں تک
ابھی سے رات کیوں ڈھلنے لگی ہے
ابھی آئی نہیں باتیں زباں تک
مرے رہبر کا رستہ کھو گیا ہے
کوئی لے آئے اُس کو کارواں تک
پہنچ جائیں گے اِک دن رفتہ رفتہ
تمہارے تِیر بھی میری کماں تک
کئی صدیوں میں سمٹی ہے مسافت
مسافر ہیں، چلیں آخر کہاں تک
سمجھ آئی نہیں اپنی ہمیں بھی
بنا ڈالی کسی نے داستاں تک
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment