پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یا رب!
دل ہی دُکھتا ہے نہ اب آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں چبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دوانوں کی بسر ہوتی ہے
غم ہی دشمن ہے مرا، غم ہی کو دل ڈھونڈتا ہے
ایک لمحے کی جدائی بھی اگر ہوتی ہے
ایک مرکز کی تلاش ایک بھٹکتی خوشبو
کبھی منزل کبھی تمہیدِ سفر ہوتی ہے
مینا کماری ناز
No comments:
Post a Comment