Click Here

Tuesday, October 1, 2013

ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا


ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا
گراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانی

ابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کا
ابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانی

ابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سے
سحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہے

ابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کے
فضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے

ابن انشاء

No comments:

Post a Comment