اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، میری تنہائی پر مُسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر ملتا رہا، زہر پیتے رہے ، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی ، اور ہم بھی اِسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف ایک دریچہ کُھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں ، چوٹ کھاتے رہے، گُنگُناتے رہے
سخت حالات کے تیز طوفان میں، گِر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
ہم چراغِ تمنا جلاتے رہے ، وہ چراغِ تمنا بُجھاتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا ، اِس لیے سُن کے بھی اَن سُنی کر گیا
کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں ، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے ---
No comments:
Post a Comment