Click Here

Tuesday, October 1, 2013

ایک آسیب زدہ شام : ابن انشاء

 

کل شام کی پیلی روشنی جب ڈوب رہی تھی
گھر پہنچا میں سوچ میں ڈوبا ، گھبرا یا
دور کہیں بنسری کی تانا ڑا کے
ایک پرانے دوست نے جنگل میں بلایا
ویرانی ہے تنہائی ہے خاموشی ہے
ٹھیر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا
دور کہیں اک بنسری کی تان البیلی
گونج رہی تھی اور میں دبکا دبکا یا
آنگن کی ویرا ن فضا میں گھوم رہا تھا
ایک ایک کمرے میں جھانکا ، دیا جلایا
کھڑکی کے پٹ کھول کے تاروں کو دیکھا
بھیگی بھیگی نرم ہوا کا جھونکا آیا
کون ہوا کس دیس کا یہ چھیل چھبیلا
پیت کے ہاتھوں باؤلا قسمت کاستا یا
روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں
وقت کی تپتی دھوپ میں جھلساسنو لایا
دیس دیس کے راکشوں سے لڑتا بھڑتا
آج ہمارے شہر کی جانب نکل آیا
کس ظالم نے شام کے اس شانت سمے میں
مہجوری کے درد کو ، سوتے سے جگا یا
گونج رہی ہے بنسری کی تان البیلی
درد برہ کا ہو گیا کچھ اور رسوایا
کھڑکی کے پٹ بھیڑ دوں اور دیا جلالوں
چاروں کوٹوں پھیل چکی ہے رات کی چھایا
دور دیس کے باولے اوچھیل چھبیلے
ہم نے کیا اس پیت میں کھویا ،کیا پا یا
صحراؤں میں راہ راہ کی مٹی چھانی
دریاؤں کا موڑ مو ڑ پر ساتھ نبھایا
بادل بن کر انبر انبر گھومے لیکن
کب پہنچا ہے چاند تک دھرتی کا جایا
روپ نگر کی شہزادی کی کھوج میں حیراں
دیکھ چکے جو پیت ہم کو دکھلایا
راج کیا کبھی دوار دوار پر بھکشا مانگی
تحفے میں کبھی پھول ملے کبی پاتھر کھایا
لیکن اب تو بھیگے دامن سوکھ چکے ہیں
ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا
روندے رہے ہیں اوس کو دھلتے دھلتے پاؤں
ہر پتی نے دیکھ کے ہم کو سیس نوایا
وادی گھیری گاؤں کے چولھوں کے دھوئیں نے
دور دور سے سرمئی بادل گھر آیا
پچھم میں سونے کی نوکا ڈوب چلی ہے
کانٹے تو نے چبھ کر ناحق پاپ کمایا
سونک رہا ہے بوڑھا پیپل سائیں سائیں
دیکھو چوتھی رات کا چندا ابھر آیا
لیکن اب وہ بنسری کی تان کہاں ہے
تو نے پھر کیوں رانجھڑے یاں ہمیں بلایا
دھندلے سائے دھندلی راہیں میٹ رہی ہیں
میں تو بستر چھوڑ کے آ کے پچھتا یا
شاخ شاخ پر شور مچاتے پنچھی دبکے
دیکھو دیکھو جھیل میں کیسا طوفاں آیا
چٹے چٹے سارس بیٹھے ایک کنارے
ڈھونڈ رہے ہیں چندا کی لہراتی چھایا
بنسی کی آواز فضا میں ڈوب رہی ہے
کوئی چھلاوا تھا کہ ہمیں نے دھوکا کھایا
نیلا انبر پیلے چاند کا جھومر باندھے
دیکھو اب اس پیڑ کے اوپر اتر آیا
پھندے ڈالے گاؤں کے چولھوں کے دھوئں نے
دور کہیں اک جانور ، بن کر ڈکرایا
کوئی بگولا کفنی ڈالے ناچ رہا ہے
کوئی ستارہ ٹوٹ کر وہ گرا ۔۔ خدایا
بیتی گھڑیاں بھولی یادیں ، مٹتے سپنے
سب بیری ہیں سب نے مل کر جال بچھایا
اوس گری تو بنسی کے شعلے مرجھائے
چار کوٹ سے اندھیارے کا طوفاں آیا
روح میں گھس کر بیٹھ گئے مٹیالے سائے
دیکھا اپنی سوچ نے کیا کیاسونگ رچایا
بنسی کی آواز فضا میں گونج رہی ہے
گھر پہنچا ہوں سوچ میں ڈوبا گھبرایا
دوس دیس کے باؤلے او چھل چھبیلے
تجھ پر بھی کیا کسی آسیب کاسایا
کھڑکی کے پٹ بھیڑ لوں اور دیا بجھا دوں
ٹھہر ذرا اے دوست میں آیا ابھی آیا

ابن انشاء

No comments:

Post a Comment