Click Here

Showing posts with label Nasir Kazmi. Show all posts
Showing posts with label Nasir Kazmi. Show all posts

Monday, September 30, 2013

اپنے لاہور کے نام !

! اپنے لاہور کے نام 
اے ساکنانِ خطہء لاہور! دیکھنا
لایا ہوں اس خرابے میں سے لعلِ معدنی
ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی ---
ناصر کاظمی

Wednesday, January 9, 2013

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی

تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی

پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی

دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

ناصر کاظمی

Monday, January 7, 2013

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے

کر دیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے

اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے

ناصر کاظمی