Click Here

Monday, August 13, 2012

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں













میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم میں حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کمان ٹوٹی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں
میرا خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعت دید نے تجھہ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھہ سراپا اپناکی ہے
خواہش دید کا موسم کبھی دھندھلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پے اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
طور ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ تیرے حسسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جاے
میں نے چاہا کہ میرے فون کے گلستان کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جاے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلم تیرا
رقص کرتا رہے پھرتا رہے خوشبو کا خمارتیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہ زخم غم دیدہ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھہ سے دل میں اتر جاے تو کیا ہوتاہے
تو کہ سیماب طبیت ہے تجھے کیا معلوم
موسم ہجر ٹھہر جاے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس مور پے توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھہ سکتا نہی کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد اے گا تیری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے تیرے عہد محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں میرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
‎... میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں

No comments:

Post a Comment