Click Here

Friday, August 17, 2012

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد



دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمہء بے ساز و صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیئے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثہ ء عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد 



No comments:

Post a Comment