Click Here

Friday, August 17, 2012

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ












میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی 
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی 
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ 
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ 
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ 
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ 
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں 
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں 
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد 
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد 
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم 
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم 
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں 
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں 
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار 
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار 
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار 
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار 
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں 
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں 
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے 
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا 
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ


No comments:

Post a Comment