Click Here

Tuesday, January 8, 2013

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی ایک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے ...

احمد فراز

No comments:

Post a Comment