Click Here

Tuesday, January 8, 2013

حال خوش تذکرہ نگاروں کا

حال خوش تذکرہ نگاروں کا
تھا تو اک شہر خاکساروں کا

پہلے رہتے تھے کوچہء دل میں
اب پتہ کیا ہے دل فگاروں کا

کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
بسترا اب کہاں ہے یاروں کا

چلتا جاتا ہے سانس کا لشکر
کون پُرساں ہے یادگاروں کا

اپنے اندر گھسٹ رہا ہوں میں
مجھ سے کیا ذکر رہ گزاروں کا

ان سے جو شہر میں ہیں بے دعوى
عیش مت پوچھ دعویداروں کا

کیسا یہ معرکہ ہے برپا جو
نہ پیادوں کا نہ سواروں کا

بات تشبیہہ کی نہ کیجو تُو
دہر ہے صرف استعاروں کا

میں تو خیر اپنی جان ہی سے گیا
کیا ہوا جانے جانثاروں کا

کچھ نہیں اب سوائے خاکستر
ایک جلسہ تھا شعلہ خواروں کا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment