Click Here

Tuesday, January 8, 2013

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے

تھا ستم بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے

دور تک باغ اُسکی یادوں کے
لہلہاتے چلے گئے ہوں گے

دشتِ آشفتگی میں خاک بسر
خاک اُڑاتے چلے گئے ہوں گے

فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے

ہم خود آزار تھے سو لوگوں کو
آزماتے چلے گئے ہوں گے

ہم جو دُنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment