Click Here

Thursday, August 29, 2013

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جاۓ

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جاۓ
نیند اس کی ہے جو اڑا لے جاۓ

زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے
بات اس کی ہے جو بنا لے جاۓ

تیغ اس کی ہے شاخ_ گل اس کی
جو اسے کھینچتا ہوا لے جاۓ

یوں تو اس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جاۓ

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اٹھا لے جاۓ

قرض ہو تو کوئی ادا کر دے
ہاتھ ہو تو کوئی چھڑا لے جاۓ

لو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جاۓ

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بتوں کو کہاں خدا لے جاۓ

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جاۓ

میں غریب الدیار، میرا کیا
موج لے جاۓ یا ہوا لے جاۓ

خاک ہونا ہی جب مقدر ہے
اب جہاں بخت نارسا لے جاۓ

No comments:

Post a Comment