Click Here

Monday, September 2, 2013

میں تیری سنگت میں بھی تنہا تھی

میں تیری سنگت میں بھی تنہا تھی
میں تیرے ہجر میں بھی اب اکیلی ہوں
بھلے بے مائیگی آزار کی صورت
مری آنکھوں سے رستی رہتی ہے
لیکن تجھے اب چاہنے والا
وہ دل ہی نہ رہا
ورنہ تو سانسوں کے سبھی سُر
آج بھی شاید
تجھے ہم سونپ دیتے
گو کہ حدِ آسماں، حدِ نظر
اب صرف تنہائی ہی ساتھی ہے
مگر دریا میں لہریں اُلٹی کب چلتی ہیں؟
رستے لوٹ کر واپس ہی کب آتے ہیں؟
اب میں خود کی خواہش میں ہی رہنا چاہتی ہوں
زندگی کو خود ہی جینا چاہتی ہوں _

No comments:

Post a Comment