Click Here

Tuesday, October 1, 2013

چار پہر کی رات : ابن انشاء

جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات
باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجن کی برات
سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیا سنجوگ
ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات
بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا
آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات
میلے آنسو ڈھلکے جھومر ،اجلی چادرسونی سیج
اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات
چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ
باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ
کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے
بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ
ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ
جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے
پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں
سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں
درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے
روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں
یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو
اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں
انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے
ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے
مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے
نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں
ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے
سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ
اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ
کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ
قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ
جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب
کیسے ان تاروں نے بگاڑی ا پنی ہماری چال نہ پوچھ

ابن انشاء

No comments:

Post a Comment