Click Here

Monday, November 4, 2013

جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات

جھوٹی سچی مجبوری پر لال دلھن نے کھینچا ہات
باجے گاجے بجتے رہے پر لوٹ گئی ساجنکی برات
سکھیوں نے اتنا بھی نہ دیکھا ٹوٹ گئے کیا کیاسنجوگ
ڈھولک پر چاندی کے چوڑے چھنکاتے میں کاٹی رات
بھاری پردوں کے پیچھے کی چھایا کو معلوم نہ تھا
آج سے بیگانہ ہوتا ہے کس کا دامن کس کا ہات
میلے آنسو ڈھلکے جھومر ،اجلی چادرسونی سیج
اوشا دیوی یوں دیکھ رہی ہو کس کی محبت کی سوغات
چاند کے اجیالے پی نہ جاؤ موم کی یہ شمعیں نہ بجھاؤ
باہر کے سورج نہ بلا ؤ جلنے دو تنکے کے ا لاؤ
کس مہندی کا رنگ ہوا یہ کس سہرے کے پھول ہوئے
بوجھنے والے بوجھ ہی لیں گے لاکھ نہ بولو لاکھ چھپاؤ
ہم کو کیا معلوم نہیں سمجھوں کو ناحق سمجھاؤ
جیسے کل کی بات ہو جانی پیت کے سب پیمان ہوئے
پردے اڑیں دریچے کانپیں پروا کے جھونکے آئیں جائیں
سانجھ سمے کے شوکتے جنگل کس کو پکاریں کس کو بلائیں
درد کی آنچ جگر کو جلائے پلکیں نہ جھپکیں نیند نہ آئے
روگ کے کیڑے سینہ چاٹیں زخموں کی دیواریں سہلائیں
یاد کے دوار کو تیغہ کر دو جگہ جگہ پہرے بٹھلا دو
اجنبی بنجاروں سے کہہ دو پیت نگر کی راہ نہ آئیں
انشا جی اک بات جو پوچھیں تم نے کسی سے عشق کیا ہے
ہم بھی تو سمجھیں ہم بھی تو جانیں عشق میں ایسا کیا ہوتا ہے
مفت میں جان گنوا لیتے ہیں ہم نے تو ایساسن رکھا ہے
نام و مقدم ہمیں بتلائیں آپ نہ اپنے جی کو دکھائیں
ہم ابھی مشکیں باندھ کے لائیں کون وہ ایسا ماہ لقا ہے
سانس میں پھانس جگر میں کانٹے سینہ لال گلال نہ پوچھ
اتنے دنوں کے بعد تو پیارے بیماروں کا حال نہ پوچھ
کیسے کٹے جیسے بھی کٹے اب اور بڑھے گا ملال نہ پوچھ
قرنوں اور جگنوں پر بھاری مہجوری کے سال نہ پوچھ
جن تاروں کی چھاؤں میں ہم نے دیکھے تھے وہ سکھ کے خواب
کیسے ان تاروں نے بگاڑی ا پنی ہماری چال نہ پوچھ

ابن انشاء

No comments:

Post a Comment