Click Here

Tuesday, January 8, 2013

بزم سے جب نگار اٹھتا ہے

بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے

میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے

تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے

اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے

تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے

کون ہے جس کو جاں عزیز نہیں؟
لے ترا جاں نثار اٹھتا ہے

صف بہ صف آ کھڑے ہوئے ہیں غزال
دشت سے خاکسار اٹھتا ہے

ہے یہ تیشہ کہ ایک شعلہ سا
بر سرِ کوہسار اٹھتا ہے

کربِ تنہائی ہے وہ شے کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے

تو نے پھر کَسبِ زَر کا ذکر کیا
کہیں ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

لو وہ مجبورِ شہر صحرا سے
آج دیوانہ وار اٹھتا ہے

اپنے ہاں تو زمانے والوں کا
روز ہی اعتبار اٹھتا ہے

جون اٹھتا ہے، یوں کہو، یعنی
میر و غالب کا یار اٹھتا ہے --

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment