Click Here

Wednesday, August 28, 2013

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

زمیں چھٹی تو بھٹک جاؤ گے خلاؤں میں
تم اڑتے اڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

نہیں تو برف سا پانی تمہیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوۓ انگلیاں نہ چھو لینا

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

اڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

مروتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوک_ سناں نہ چھو لینا !

No comments:

Post a Comment