اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھکو تو جُستجو
بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو
پُوچھا، بتاؤ درد کو چھُو کر لگا ہے کیا ؟ لہو
دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند ؟
آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو
ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر
آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو
پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟
میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو
پُوچھا ، نمی سے ، دھُند سی آنکھوں میں کس لئے ؟
آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو
پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟
تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو
پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟
... میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُو برو
No comments:
Post a Comment