Click Here

Monday, August 13, 2012

اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھکو تو جُستجو


اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھکو تو جُستجو

بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو

پُوچھا، بتاؤ درد کو چھُو کر لگا ہے کیا ؟‎ ‎لہو

دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند‎ ‎؟

آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو

ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر

آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو

پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟

میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو

پُوچھا ، نمی سے ، دھُند سی آنکھوں میں کس لئے ؟

آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو

پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟

تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو

پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟

‎... میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُو برو‎  

No comments:

Post a Comment